Friday, September 3, 2010

Ghazal - Aandhiyon Ka Mausam Hain

غزل

آندھیوں کا موسم ہے، اب گلاب ٹوٹیں گے
تُربتوں پہ جلنے کو آفتاب ٹوٹیں گے

ہر کسی کو دینا ہے اپنا اپنا کفارہ
جب انا کے اونچے بُت اور خواب ٹوٹیں گے

بانٹتے پھرتے ہیں جو نفرتوں کے اندھیارے
روشنی کے وہ پیکر بے حساب ٹوٹیں گے

کتنی دیر ناچو گے خود سری کے شانوں پر
اور تھوڑی مہلت ہے، پھر سراب ٹوٹیں گے

شاہ سے بھکاری تک کوئی بچ نہ پائے گا
بد نصیب بستی پر جب عذاب ٹوٹیں گے

Nazm - Aik Harf-e-Mo'tabar

ایک حرفِ معتبر


سبھی یہ چاہتے تو ہیں
کہ ہر دعا قبول ہو
مگر
کہاں سے لائیں
صرف
ایک حرفِ معتبر
کہ جو زمینِ قلب میں اُگے
تو مدعا بنے
لبوں کی کپکپاھٹوں کو چوم کر
امانتِ دعا بنے

نہ حرفِ معتبر ہے
نہ زمینِ قلب میں نمی
زباں بھی بے ادب
تو پھر
بھلا دعائیں کس طرح قبول ہوں

Bhool kar hi woh kisi din



غزل




بھول کر ہی وہ کسی دن مرے گھر آئے تو
میں گلے سے بھی لگا لوں گا مگر آئے تو


بیٹھے رہتے ہیں کئی بھوکے پرندے چھت پر
مگر آنگن کے درختوں پہ ثمر آئے تو


ایک سمجھوتا شبِ غم سے کیا ہیں میں نے
ترک کر دوں گا اندھیروں کو سحر آئے تو


اُس کو اندازہ مری وسعتِ دامن کا نہیں
آنکھ جذبات سے اُس کی کبھی بھر آئے تو


شہر کا شہر حمایت میں کھڑا پائے گا
سر پھر کوئی بغاوت پہ اُتر آئے تو

Hadiyah-e-Aqeedat


ھدیہء عقیدت


ساری کائنات کی جان ہمارے آقا 
نورِ الٰہی، پیکر یکتا، پیارے آقا


ان ذروں کا تاج بنا کے سر پر رکھ لوں
جن ذروں نے چومے قدم تمھارے آقا


پلکوں کے بند روک نہیں سکتے اشکوں کو
یاد آتے ہیں جب پر نور نظارے آقا


فرقت کے نشتر سینے کو کاٹ رہے ہیں
تڑپ رہے ہیں گھائل غم کے مارے آقا


پھر پیشانی کرم کی چوکھٹ ڈھونڈ رہی ہے
حاضریاں پھر لکھ دو نام ہمارے آقا


امیدوں کی نظریں ٹھہر گئی ہیں تم پر
ہو گئے سب بے معنی اور سہارے آقا


آخر بے کس سالک کی اوقات ہی کیا ہے
تم نےتو عالم کے بھاگ سنوارے آقا

Tuesday, August 31, 2010

Hamd - Koi Tu Hai Jo Hamesha

کوئی تو ہے


کوئی تو ہے جو ہمیشہ نظر میں رکھتا ہے
کہ رکنے دیتا نہیں ہے، سفر میں رکھتا ہے

ہر ایک راہ ، ہر اک سمت ہے اسی کی طرف
وہ مقناطیس سا ایسا اثر میں رکھتا ہے

کب اس سے مانگنے والا رہا تہی دامن
ہر اک طلب کی عطا اپنے گھر میں رکھتا ہے

دیئے ہیں فکر و تخیل کو زاویے اس نے
ہزار حکمتیں شام و سحر میں رکھتا ہے

ٹھکانہ اس کا ہے امکان کی حدوں سے پرے
قیام صرف دلوں کے شہر میں رکھتا ہے

Ghazal - Dard Kay Jaltay Pairaahan Mein

درد کے جلتے پیراہن میں قید تھا میں
زندہ تھا پر ایک کفن میں قید تھا میں

میری اپنی روح پہنچ سے باہر تھی
یوں تو اس کے ساتھ بدن میں قید تھا میں

جگتے خوابوں کے زنداں میں رات کے بعد
دن نہ کٹنے کی الجھن میں قید تھا میں

زندہ دلوں کی بھیڑ تھی میرے چار اطراف
تنہا ایک عجیب گھٹن میں قید تھا میں 

سوچوں کی سنگلاخ زمیں پر کڑا سفر
لمحہ لمحہ نئی تھکن میں قید تھا میں

پابند تقدیر تھی ہر تدبیر میری
خون پسینے کے ایندھن میں قید تھا میں

جنہیں نبھانا، توڑنا، دونوں طرح عذاب
ایسے رشتوں کے بندھن میں قید تھا میں 

 قسمت میں جب ممتا کی آغوش نہ تھی
کس کی خواہش پر جیون میں قید تھا میں 

 سامنے کچھ دیوار پہ لکھا تھا سالک
لیکن اپنی ہی ان بن میں قید تھا میں