Friday, September 3, 2010

Ghazal - Aandhiyon Ka Mausam Hain

غزل

آندھیوں کا موسم ہے، اب گلاب ٹوٹیں گے
تُربتوں پہ جلنے کو آفتاب ٹوٹیں گے

ہر کسی کو دینا ہے اپنا اپنا کفارہ
جب انا کے اونچے بُت اور خواب ٹوٹیں گے

بانٹتے پھرتے ہیں جو نفرتوں کے اندھیارے
روشنی کے وہ پیکر بے حساب ٹوٹیں گے

کتنی دیر ناچو گے خود سری کے شانوں پر
اور تھوڑی مہلت ہے، پھر سراب ٹوٹیں گے

شاہ سے بھکاری تک کوئی بچ نہ پائے گا
بد نصیب بستی پر جب عذاب ٹوٹیں گے

No comments:

Post a Comment