Friday, September 3, 2010

Bhool kar hi woh kisi din



غزل




بھول کر ہی وہ کسی دن مرے گھر آئے تو
میں گلے سے بھی لگا لوں گا مگر آئے تو


بیٹھے رہتے ہیں کئی بھوکے پرندے چھت پر
مگر آنگن کے درختوں پہ ثمر آئے تو


ایک سمجھوتا شبِ غم سے کیا ہیں میں نے
ترک کر دوں گا اندھیروں کو سحر آئے تو


اُس کو اندازہ مری وسعتِ دامن کا نہیں
آنکھ جذبات سے اُس کی کبھی بھر آئے تو


شہر کا شہر حمایت میں کھڑا پائے گا
سر پھر کوئی بغاوت پہ اُتر آئے تو

No comments:

Post a Comment