غزل
بھول کر ہی وہ کسی دن مرے گھر آئے تو
میں گلے سے بھی لگا لوں گا مگر آئے تو
بیٹھے رہتے ہیں کئی بھوکے پرندے چھت پر
مگر آنگن کے درختوں پہ ثمر آئے تو
ایک سمجھوتا شبِ غم سے کیا ہیں میں نے
ترک کر دوں گا اندھیروں کو سحر آئے تو
اُس کو اندازہ مری وسعتِ دامن کا نہیں
آنکھ جذبات سے اُس کی کبھی بھر آئے تو
شہر کا شہر حمایت میں کھڑا پائے گا
سر پھر کوئی بغاوت پہ اُتر آئے تو
No comments:
Post a Comment