کوئی تو ہے
کوئی تو ہے جو ہمیشہ نظر میں رکھتا ہے
کہ رکنے دیتا نہیں ہے، سفر میں رکھتا ہے
ہر ایک راہ ، ہر اک سمت ہے اسی کی طرف
وہ مقناطیس سا ایسا اثر میں رکھتا ہے
کب اس سے مانگنے والا رہا تہی دامن
ہر اک طلب کی عطا اپنے گھر میں رکھتا ہے
دیئے ہیں فکر و تخیل کو زاویے اس نے
ہزار حکمتیں شام و سحر میں رکھتا ہے
ٹھکانہ اس کا ہے امکان کی حدوں سے پرے
قیام صرف دلوں کے شہر میں رکھتا ہے
No comments:
Post a Comment