درد کے جلتے پیراہن میں قید تھا میں
زندہ تھا پر ایک کفن میں قید تھا میں
میری اپنی روح پہنچ سے باہر تھی
یوں تو اس کے ساتھ بدن میں قید تھا میں
جگتے خوابوں کے زنداں میں رات کے بعد
دن نہ کٹنے کی الجھن میں قید تھا میں
زندہ دلوں کی بھیڑ تھی میرے چار اطراف
تنہا ایک عجیب گھٹن میں قید تھا میں
سوچوں کی سنگلاخ زمیں پر کڑا سفر
لمحہ لمحہ نئی تھکن میں قید تھا میں
پابند تقدیر تھی ہر تدبیر میری
خون پسینے کے ایندھن میں قید تھا میں
جنہیں نبھانا، توڑنا، دونوں طرح عذاب
ایسے رشتوں کے بندھن میں قید تھا میں
قسمت میں جب ممتا کی آغوش نہ تھی
کس کی خواہش پر جیون میں قید تھا میں
سامنے کچھ دیوار پہ لکھا تھا سالک
لیکن اپنی ہی ان بن میں قید تھا میں
No comments:
Post a Comment